Badshah ke 7 Betiyon ki kahani

ایک بادشاہ کی سات بیٹیاں تھیں اور ایک دن اپنے ساتھ تو بیٹیوں کو بلا کر کہتا ہے میں تم سے ایک سوال پوچھوں گا اور اگر جواب اچھا لگا تو تمہارا من چاہا انعام بھی دوں گا بادشاہ نے اپنے بیٹیوں سے سوال کیا تم کس کا دیا کھاتی ہو اور کس کا دیا پہنتی ہو سات میں سے چھ بیٹیوں نے کہا ابا حضور آپ کا دیا کھاتے ہیں اور آپ کا دیا پہنتے ہیں اور آپ ہی کی وجہ سے ہماری یہ شان و شوکت ہے یہ سن کر بادشاہ خوش ہوا اور چھ بیٹیوں کو ان کی من پسند چیز دی دیں جب چھوٹی بیٹی کی باری آئی تو اس نے کہا میں اللہ کا دیا کھاتی ہو اور اپنی قسمت کا پہنتی ہو اور یہ میرا نصیب ہے بادشاہ یہ سنتے ہی غضب ناک ہو گیا اور کہنے لگا اے کمبخت تو نے میری ناشکری کی ہے تجھے اس کی سزا ضرور ملے گی اس بیٹی نے کہا جو حکم  ابا حضور بادشاہ نے سپاہیوں سے کہا جاؤں اسے جنگل میں چھوڑ آؤ میں بھی دیکھو میرے بغیر یہ کیسی اللہ کا دیا کھاتی ہے اور اپنے نصیب کا پہنتی ہے شہزادی سے تمام زیورات واپس لے لیے گئے بغیر کسی ساز و سامان کے بادشاہ کے حکم کے مطابق جنگل میں تنہا چھوڑ دیا گیا سب سپاہی شہزادی کو چھوڑ کر واپس چلے گئے شہزادی جنگل کو دیکھنے لگی چاروں طرف درخت ہی درخت تھے اور اب شام ہونے کے شہزادے نے سوچا کہ کیوں نہ کچھ لکڑیاں جمع کر کے رات کو آگ جلاؤ تاکہ جنگلی جانور پاس نہ اسکے  اور رات بھی گزر جائے گی  شہزادی جنگل میں لکڑیاں ڈھونڈنے چل پڑی اس کی نظر ایک جھوپڑی پر پڑی  جہاں باہر ایک بکری باندھی ہوئی تھی اور انداز سے کھانسی کی آواز آ رہی تھی  پہلے تو شہزادی بہت حیران ہوئی کہ اتنی ویران جگہ پر جھونپڑی جب وہ جھوپڑی کے اندر داخل ہوئی جھونپڑی کے اندر ایک بوڑھا ‏ضعیف چارپائی پر لیٹا ہے اور کھانستے کھانستے پانی پانی پکار رہا تھا شہزادی ادھر ادھر دیکھتی ہے تو کونے میں ایک پانی کا کھڑا ہوتا ہے وہ پانی بوڈھے ضعیف کو پلاتی ہے اتنے میں وہ بوڑھا شخص سے پوچھتا ہے کہ بیٹی تم کون ہو اور اتنے  بڑے جنگل میں تم اکیلی کیا کر رہی ہو تب شہزادئے اسے پورا ماجرہ بتاتی ہے کہ وہ اس جنگل میں کیسے پہنچی وہ بوڑھا شخص سے شہزادی کو جھوپڑی میں ہی میں رہنے کو کہتا ہے
اور کہتا ہے کہ میں شہر میں کام کرتا ہوں صبح شہر چلا جاؤں گا اور ایک ہفتے کے بعد آؤں گا تم یہیں رہو اور جھونپڑی میں کھانے کا سامان ہے اور ندی پاس ہی ہے اور تم وہاں سے پینے کے لئے پانی لے آنا صبح ہوتے ہی وہ شہر چلا جاتا ہے اور شہزاد یہاں اکیلی جھونپڑی میں سب صفائی کر کے بکری کا دودھ نکالتی ہے ادا اپنے لیے رکھ دیتی ہے اور ادہ باہر ایک کونے میں برتن میں ڈال کر دیتی ہے کہ رات کو کوئی جانور بھوکا ءا پیاسا ہوگا تو پیلے گا اور شہزادی اندر  آ کر سو جاتی ہے  جب صبح شہزادی ہوتی ہے تو کیا دیکھتی ہے دودھ کا برتن خالی اور پاس ایک لال پڑھا ہے جو دیکھنے میں بہت ہی نایاب اور قیمتی معلوم ہوتا ہے اور پاس ہی سانپ کے نشان بھی نظر آتے ہیں تب شہزادی کو یاد آتا ہے کہ بچپن میں  میں نے سنا تھا کہ جب کوئی نایاب سانپ بہت خوش ہوتا ہے تو ایک ایسا لال گوگل تا ہے جس کی قیمت ہیرو سے بھی مہنگی ہوتی ہے شہزادی بہت حیران ہوتی ہے اور دل میں سوچتی کہ شاید سانپ بھوکا تھا جو دودھ پی کر خوشی میں یہ نایاب چیز چھوڑ کر گیا پھر جب وہ لال اپنے پاس اٹھا کر رکھ لیتی ہے 
دوسری رات بھی شہزادی برتن میں دودھ رکھ دیتی ہے اور صبح جب دیکھتی ہے تو پھر ایک لال ہوتا ہے  ایسے ہی کرتے کرتے سات دن گزر جاتے ہیں 
اور شہزادی کے پاس سات لال جمع ہو جاتے ہیں  اور اس دن بوڑھا ضعیف بھی آ جاتا ہے جب شہزادی اسے لال دکھاتی ہے اور سارا واقعہ سنا تی ہے اور اس ضعیف کو تین لال دے دیتی ہے اور کچھ ہی دنوں میں جنگل ایک عالیشان محل تیار کرتے ہیں جس میں وہ ضعیف اور شہزادی رہنے لگتے ہیں دیکھتے ہی دیکھتے جنگل شہر نما بن جاتا ہے اور دور دور تک دھوم مچ جاتی ہے کہ شہزادی بہت ہی رحم دل ہے جب یہ خبر بادشاہ تک پہنچتی تو بادشاہ کے دل میں اشتیاق ہوتا ہے کہ دیکھو تو سہی کون سے ملک کی شہزادی ہے جس کی اتنی تعریف ہے بادشا سپاہیوں کے ہاتھ پیغام بھیجتا ہے شہزادی سے ملنے کا یہاں  شہزادی کے سپاہی جب سے شہزادی کو بتاتے ہیں تو شہزادی یہ حکم دیتی ہے کہ بادشاہ سلامت ایک ہی شرط پر ہم سے مل سکتے ہیں کہ وہ اپنے تمام بیٹیوں کے سات آئے سپاہی جاگر یہ پیغام دی دیتے ہیں  ایک دن بادشاہ اپنی تمام بیٹیوں کے سات شہزادی کے محل جاتا ہے شہزادی ان سب سے چہرے پہ نقاب پہن کر ملتی ہے اور ان کے لیے سات رنگ کے کھانے پیش کرتی ہے اور ہر کھانے کے ساتھ اسی رنگ کا جوڑا اور زبزات پہن کر آتی ہے
آخر میں بادشاہ شہزادی سے کہیں دیتا ہے تم میری بیٹی کی طرح ہو اور میں بھی تمہارے کہنے پر اپنی بیٹیوں کے سات آیا ہوں پھر ہم سے یہ پردہ کس لیے بہت اسرار پر شہزادی کہے تی ہے کہ ٹیک ہے میں تیار ہو کر آتی ہو سب شہزادیاں اپس میں باتے کرنے لگے اتنی تو تیار ہے اتنے مہنگے زیبرات پہن ہو ہے اب اور کتنا تیا ہو کر دیے گی اتنے میں کیا  دیکھے تھے ہے کہ دور سے ایک خستہ حال کپڑوں میں کوئی آ رہا ہے اور غور کرنے پر بادشاہ کو یاد آتا ہے کہ یہ ابھی تک زندہ ہے میں سوچتا تھا کہ اسے جنگل کے جانور کھا گئے اور جب میں نے اس کی خبر لینے کے لیے اپنے سپاہیوں کو بھیجا تھا تب انہوں نے ہی بتایا تھا کہ وہاں شہزادی کا کوئی نام و نشان نہیں ہے تو یہ کیسے ممکن ہے بادشاہ خوشی سے جومتا اٹتا ہے
اور کہتا ہے کہ شہزادی کو بلاؤ میں تمہیں شہزادی سے آزاد کروا کے لے جاؤں گا چاہے وہ تمہارے قیمت میں میری ساری بادشاہت مانگلے یہ سنتے ہی شہزادی بولتی ہے نہیں ابا حضور نہیں وہ شہزادی ہوں میں نہیں کہتی تھی کہ اللہ کا دیا کھاتی ہوں اپنے نصیب کا پہنتی ہو بس اسی اللہ نے مجھے کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے کے آج میں آپ سے بھی زیادہ امیر ہو اور وہ شہزادی اپنا تمام حال بیان کرتی ہے کہ وہ اس مقام تک کیسے پہنچی دکھاتی ہے اپنے گلے کا معلا جس میں ابھی بھی چار لاکھ موجود تھے یہ بات سنتے ہی تمام شہزادیاں سوچتی ہے کہ اے کاش ہم نے بھی تب یہی کہا ہوتا اللہ کا دیا کھاتی ہے اپنے نصیب کا پہنتی ہے
Previous Post Next Post