6/recent/ticker-posts

Iran ki Haqeeqat

 *ایرانی انتقام سخت کے نتیجے میں اسرائیلی زخمیوں کی تعداد ڈھائی ہوگئی۔ دو بڑی عمر کے افراد اور ایک بچی۔*


 ایرانی "حملے" کے بارے میں شامی نژاد ادیب و صحافی "فیصل القاسم" کا خوبصورت تبصرہ:

"جنازہ بڑا ہے اور مرنے والا کتا ہے۔۔۔"

کل ایران سے اسرائیل کی طرف جو کچھ ہوا اس پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے..ایک بہت سرد منظر.. اب واپس غزہ کی طرف چلتے ہیں، جہاں اصل جنگ ہے اور باقی سب کچھ "خالی ہلچل" ہے."


 *ایرانی حملے کے نتائج:*

- زخمی تقریباً ڈھائی یا پونے 3 افراد

- اموات صفر 

 - مادی نقصان صفر

جبکہ

 1- نتن یاہو کے خلاف مظاہرے رک گئے..

 2- غزہ اور مغربی کنارے میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے توجہ ہٹ گئی.

 -3- امریکہ، برطانیہ اور مغرب نے اسرائیل کی حمایت اور فنڈنگ تقریباً بحال کر دی..

4- ایران پر اعتماد بحال کرنا (فریب پرستوں کی نظر میں) تاکہ ایران عربوں اور مسلمانوں کے خلاف اپنے اہداف کو پورا کر سکے۔

 5-  اسرائیل پر ایرانی حملہ دمشق میں ان کے سفارت خانے کو نشانہ بنانے کا ردعمل تھا نہ کہ غزہ کی مدد۔

 بڑا جنازہ، لیکن میت کتے کی!!

صبح سے اب تک مشرق وسطیٰ کی تازہ پیشرفت پہ عالمی اور بالخصوص عرب میڈیا پر نظر ہے۔ نتیجہ وہی حسب توقع ہے کہ ازرائیل پر ایرانی حملہ ایک کامیاب ڈرامہ ہے، جسے عقل سے پیدل لوگوں کو مزید بے وقوف بنانے کیلئے عرصے تک استعمال کیا جاتا رہے گا اور یہ ایران کو مسلم ہیرو بنانے کی طاغوتی پالیسی کا حصہ ہے۔ رات کی یہ کارروائی فیس سیونگ کے ساتھ اسی سلسلے کی ایک اہم کڑی اس لئے ہے، کیونکہ:

1- یہ پرانے ڈرون طیارے ایرانی سرزمین سے لانچ کیے گئے، جو 140 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے (ہمارے بلوچ بھائیوں کی اسپیشل سنگل گدھا گاڑی کی رفتار کے تقریباً برابر) سفر کرتے رہے، یعنی انہیں اسرائیل میں اپنے ہدف تک پہنچنے میں 10 گھنٹے لگ گئے، پھر پہلے سے اعلان کرکے بھیجے گئے، حالانکہ ڈرون طیارے کبھی بھی علانیہ نہیں بھیجے جاتے، کیونکہ سست رفتاری کی وجہ ان کا گرانا آسان ہوتا ہے۔ اب اسرائیل بھی ان سے باخبر تھا اور وہ ان کا انتظار کر رہا تھا۔ اس لئے وہ بہ آسانی انہیں گراتا رہا۔ یوں 99 فیصد میزائل وڈرون ناکارہ بنا دیئے گئے۔ اگر ایرانی اپنی اسٹرائیک میں مخلص ہوتے تو وہ یہ طیارے اپنی سرزمین کے بجائے شام یا لبنان سے لانچ کرتے، انہیں اسرائیل پہنچنے میں صرف 25 سے 35 منٹ لگ جاتے، پھر اسرائیل کے لئے انہیں گرانا بھی زیادہ آسان نہ ہوتا۔ ایران نے بڑے اہتمام کے ساتھ حملے کا وقت اور ہدف تک پہنچنے کا وقت بھی بتا دیا۔ بلکہ میزائلوں اور ڈرون طیاروں کا سائز، قسم اور تعداد، یہاں تک کہ ہر ڈرون میں کتنا بارود (20 کلو) ہے، یہ سب کچھ بتا دیا گیا۔ دشمن پر ایسا بھی کوئی حملہ کرتا ہے؟ اسٹرائیک تو 7 اکتوبر کی طرح ہوتی ہے کہ کراماً کاتبین را ہم خبر نیست۔۔۔ فرشتے بھی حیرت زدہ رہ گئے کہ ہمیں کیسے اس پلاننگ کی خبر نہیں ہوئی۔ بلاشبہ یہ "دشمن" کے ساتھ کئی دن کی مشاورت کے بعد مکمل باہمی رضامندی سے طے شدہ ڈرامے کا شو تھا، جو کافی حد تک کامیاب رہا۔ 

2- لانچ کیے گئے تمام ڈرون طیارے بہت معمولی مقدار کے بارودی مواد (20 کلو) رکھتے ہیں، جس کی اثر پذیری ایک بیلسٹک میزائل جتنی بھی نہیں ہے۔

3- اس اٹیک میں ہلاک اسرائیلیوں کی تعداد صفر ہے اور زخمی اب تک صرف ڈھائی افراد۔ یعنی دو بڑی عمر کے افراد اور یک بچی، باقی ہر طرف شانتی۔ یہ واضح اور حتمی ثبوت ہے کہ یہ حملہ مربوط، معلوم اور پلانٹڈ تھا۔ جیسا کہ کل ہم نے عرض کیا تھا کہ اگر حملہ ہوا نتن یاہو کے مشورے سے ہی ہوگا۔ باقی بیانات اور میڈیا میں چیخ پاخ سب معمول اور منصوبے کا حصہ ہے۔

ایرانی حملے سے نتن یاہو کو کئی نقد فوائد حاصل ہوئے۔ باقی دیرپا نتائج بھی اسرائیل کے حق میں جائیں گے۔

1.... نتن یاہو کی حکومت گرنے والی تھی۔ اب اسے دوام حاصل ہوگیا۔ اس کے خلاف ہونے والے ملک گیر مظاہرے یکدم رک گئے۔

2.... ساری دنیا کی نظر غزہ کے مظالم سے ہٹ گئی۔ اب سب کی زبان پہ یہی جعلی قضیہ ہے۔ اس سے فایدہ اٹھا کر دجال نے وہاں مزید قتل عام شروع کر دیا ہے۔ صبح سے نصیرات کیمپ اور اس کے اطراف میں بچے کھچے انسانوں کا صفایا جاری ہے۔ طیاروں سے بمباری، ڈرون اٹیک، ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ اور توپ خانے سے گولہ باری۔ ابھی کچھ دیر قبل شاہراہ رشید پر شمالی غزہ کی طرف لوٹنے والے شہریوں پر بمباری ہوئی ہے۔ مگر سب کی توجہ ایرانی حملے پہ۔ حتیٰ کہ غزہ کو بھرپور کوریج دینے والے الجزیرہ میں بھی اس حوالے سے خاموشی۔

3.... اسرائیل کی دیرینہ پالیسی ہے کہ وہ دنیا کے سامنے خود کو مظلوم ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ اسے ہر طرف سے خطرہ ہے۔ اس لئے وہ دفاع کے نام پہ امریکا سمیت مغربی ممالک سے بھاری امداد بٹورتا رہتا ہے۔ اب اس حملے نے اس کی اس پالیسی کے خاکے میں بھرپور طریقے سے رنگ بھر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ امریکا نے ہنگامی طور پہ 2 ارب ڈالر کی امداد منظور کر لی اور غزہ قتل عام کی وجہ سے باقی جن ممالک نے اسرائیل سے فاصلہ کر لیا تھا، ان کی جانب سے بھی حمایت و نصرت کی راہیں کھل گئیں۔ اس لئے 100 سے زاید میزائل حملے سہنے والی مظلوم ریاست کا ساتھ دینا تو عین انسانی ہمدردی کا تقاضا ہے ناں!

4- ایران پر اعتماد بحال کرنا (فریب پرستوں کی نظر میں) تاکہ ایران عربوں اور مسلمانوں کے خلاف اپنے اہداف کو پورا کر سکے۔

 5- اسرائیل پر ایرانی حملہ دمشق میں ان کے سفارت خانے کو نشانہ بنانے کا ردعمل تھا نہ کہ غزہ کی مدد۔

6- ابھی میزائل اور ڈرون گولان کے مقبوضہ علاقوں میں اپنے اہداف تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ اعلان کر دیا گیا کہ ہمارا "انتقامِ سخت" مکمل ہوگیا!!

7۔ صہیونی حکومت کے مطابق 99% میزائل اور ڈرون مار گرائے گئے اور کوئی نقصان نہیں ہوا۔ 

8- اسرائیلی قوم واپس اس پوزیشن پر آگئی، جس پوزیشن پر سات اکتوبر کو کھڑی تھی کہ تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں میں کامل اتحاد و اتفاق اور ہم آہنگی کی فضا قائم ہوگئی تھی۔ سارے اختلافات کو بھلا کر سب یکجان ہوگئے تھے۔ بعد میں اس قومی ہم آہنگی میں شدید دراڑیں پڑ گئی تھیں اور باہمی اختلافات میں بھی شدت آگئی تھی۔ یہاں تک کہ بعض وزراء نتن یاہو سے اختلاف کی وجہ سے مستعفی ہوگئے۔ مگر اب پھر سے قومی اتحاد کی فضا قائم ہوگئی ہے۔ اب نتن یاہو نئی شدت اور جوش کے ساتھ غزہ پر درندگی شروع کرے گا۔ چاہے اس کے نتیجے میں سارے اسرائیلی قیدی بھی ہلاک کیوں نہ ہوجائیں (جو کہ یقینی ہے) اس نکتے پر سوچتے ہوئے مجھے نہ جانے کیوں یقین ہو رہا ہے کہ "انتقام سخت" فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوا ہے۔

9- اس کا ایک مقصد یہ ہے کہ غزہ کی حمایت کے دعوے کے حوالے سے ایرانی کردار کے بارے میں مسلمانوں کو مزید دھوکہ دینا اور یہ باور کرانا کہ 57 مسلم ممالک میں سے صرف ایک ہی تو ہے، جس نے غزہ کے لیے عملی اقدام کیا، اگرچہ یہ حملہ بھی اپنے قونصل خانے کے لیے ہے، غزہ نہیں۔ لیکن سادہ لوح لوگ ہر نکتے کو کہاں سامنے رکھتے ہیں۔ نتیجتاً ایران فلسطینی کاز کی تجارت کو بہ آسانی مزید جاری رکھے گا۔

10- فلسطینی عوام کے خلاف جارحیت کی پشت پناہی سے امریکا اور دیگر ممالک بظاہر پیچھے ہٹ رہے تھے۔ خاص کر رفح آپریشن کے حوالے سے۔ لیکن اب اس حملے کے بعد ان کی اندھا دھند حمایت اسرائیل کو حاصل ہوگئی۔ امریکی اور مغربی ممالک کی حمایت و نصرت آج 7 اکتوبر کی پوزیشن پر بحال ہوگئی ہے۔ اب رفح آپریشن بھی زیادہ مشکل نہیں رہا۔

ایرانی "حملے" کے بارے میں شامی نژاد ادیب و صحافی "فیصل القاسم" خوبصورت تبصرہ کرتے ہوئے گویا سمندر کو کوزے میں بند کر دیا ہے:

"جنازہ بڑا ہے اور مرنے والا کتا ہے۔۔۔"

کل ایران سے اسرائیل کی طرف جو کچھ ہوا اس پر یہی تبصرہ کیا جاسکتا ہے..ایک بہت سرد منظر.. اب واپس غزہ کی طرف چلتے ہیں، جہاں اصل جنگ ہے اور باقی سب کچھ "خالی ہلچل" ہے۔" (ضیاء چترالی)

Post a Comment

0 Comments